از طرف سید شارق وقار رمضان شریف شروع ہوا تب اللہ کئ رحمتیں نازل ہونا شروع ہویی. لیکن ہمارے اعمال کئ گرمی موسم پر غالب آگی. بھلا ہو جہنمی کافر انگریزوں کا کے اے سی ایجاد کرکے موسم کئ گرمی سے بچا لیا. مگر اس ناہنجار کو یہ نہیں پتا کہ جہنم کئ آگ سے کیسے بچنا ہے افسوس. بہرحال صاحبان لاہور کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی گرمی سے عوام کا براحال تھا. بوجہ روزگار لاہور میں اکیلے رہنا پڑرہاتھا. گھر اور گھر والی دونوں کی یاد ستارہ رہتی ہے. سوچا رمضان بیوی بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں. رمضان میں مسلمان روزہ رکھتے ہیں اس لئے دفتری اوقات کم کردیے جاتے ہیں تاکہ میرے جیسے افسران بالا گھر جاکر انگریز کی ٹھنڈی مشین میں عبادت کرسکین. ویسے سونا بھی عبادت ہی ہے. بہرحال جناب بیوی بچوں کو جیب پر بھاری ضرب کے ساتھ بذریعہ طیارہ لاہور بلوا لیا. رمضان سخت گرم ہواؤں کئ آغوش میں گزرگیا. گھر والی کو بھی بڑا سکون ملا جی بھر کے عبارت بھی کی. کراچی کئ عوامی اور حق پرست حکومت کی مہربانی سے بجلی آتی جاتی رہتی ہے اور پانی اسنے تو نانی یاد دلادی. عید پر کراچی جانے کا ارادہ کیا تاکہ والدین کئ قدم بوسی کی جاسکے. مگر عوامی حکومت اور گرمی دونوں اور بچوں کئ چھٹیاں آڑے آگیں. سوچا لاہور سے آگے چلتے ہیں. آخری روزے کوجمہ کی نماز کے بعد بذریعہ کار براستہ موٹر وے اسلامآباد کا رخ کیا. لاہور کا موسم شدید گرم اور گرد آلود تھا. جیسے جیسے اسلام آباد قریب آتا گیا. موسم بہتر سے بہترین ہوتا گیا. کلر کہار کی آرام گاہ پہ رک کر عصر کئ نماز ادا کئ. کلرکہار سے گزرتے ہوے اسلام آباد میں ہونے والی برسات کے آثار نمایاں ہوتے گئے.مغرب کئ آزان کے ساتھ ہی اسلامآباد میں دبنگ انٹری ہوئ. روزہ سڑک پر ہی کھل گیا. حضرت گوگل کا بھلا ہو راستہ موباہل پر دیکھتے ہوے بغیر کسی انسان کی مدد کے ڈی ایچ اے کلب تک پہنچ گئے. اللہ پوچھے گا سرہندر پچاہی سی ای او گوگل سے انسان کو انسان سے دورکردیا. کیسی کافرانہ ایجاد ہے.میرے ایک بہترین دوست شہزاد کا گھر بھی کلب کے قریب تھا. عید کئ نماز اسکے ساتھ ڈیفینس کی مسجد میں ادا کی نماز کے بعد شہزاد کے اصرار پر عید کے باقی لوازمات اسکے گھر پر ادا کیے. شہزاد کے ہمت دلانے پر گاڑی کو آگے خود چلانے کا فیصلہ کیا. موٹر وے کا براےنام ٹریفک اور زوجہ کی خواہش پر گاڑی اپنے لاہسنس یافتہ برخوردار کے حوالے کردی کیونکہ بایس سالہ ازدواجی زندگی میں زوجہ کو یہ یقین کامل ہوگیا تھا کہ گاڑی صرف انکے برادران ہی چلاسکتے ہیں. کم از کم شوہر نہیں. مگر بیٹا بیٹا ہوتا ہے. براستہ موٹروے ایبٹاباد سے ہوتے ہوے بالاکوٹ پہنچے. سڑک کی ایک جانب پہاڑ دوسری جانب بہتا دریا. اس حسین منظر نے دل موہ لیا. دریا کے کنارے جانے کی خواہش ہوئ بچے تو ہمت کرکے نیچے چلے گٹےمگر میں اور اہلیہ خواہش کے باوجود آگے نہ جاسکے. کیونکہ دریا کے کنارے محمود غزنوی کی آفواج نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا.خیر صاحبان زندگی آگے بڑھتی ہے. ہم نے بھی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا. جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے قدرتی نظارے خوب سے خوبتر ہوتے گئے. راستے میں ہلکی سی بارش نے بڑا لطف دیا. مغرب کے قریب کاغان پہنچے. چڑھاہیوں پر گاڑی چلاتے ہوے ڈر تو لگا. مگر مزا بھی بہت آیا. اپنی اوقات کے مطابق ایک ہوٹل ملا مگر اسکی لوکیشن مناسب نہ لگی. دور سے دریا کے کنارے ایک بظاہر خوبصورت ہوٹل نظر آرہا تھا. راستہ تھوڑا دشوار تھا. مگر ہوٹل تک پہنچ گئے. ہوٹل والے نہ ہماری جیب کا اندازہ غلط لگایا. اور وی آی پی کمرہ دکھا دیا. کمرہ کی بلکونی سے نیچے بہتے دریا کا منظر بڑا دلکش تھا. مگر کمرے کی قیمت کچھ زیادہ لگی. تھوڑی سی بحث مباحثے کے بعد ہوٹل والے نہ ایک سستا کمرا گراونڈ فلور بر عطا کیا.جو کرایہ چارج کیا گیا اسکی وجہ آہستہ آہستہ ہم پر عیاں ہوتی گئ. ہوٹل میں باورچی خانہ نام کی کوئ شے نہ تھی . روم سروس نام کی کوئ شے نہ تھی. سردی بارش کے باعث بڑھ رہی تھی. گیزر چلانے کی فرمائش کی. پانی گرم آنا شروع ہوا اور اتنا گرم ہوگیا ایسا لگا کہ اعمال کئ سزا مل رہی ہے. ہاں یہ بتانا بھول گیا کہ ھوٹل کہ پہلے کسٹمر ھم ہی تھے.اگلے دن فجر کے بعد بیگم صاحبہ دریا کی زیارت کو جا پہنچیں.موسم سرد تھا. بچوں سمیت ہم بھی دریا کی قدم بوسی کو جا پہنچے. پہاڑوں پر جمی برف اور ٹھاٹے مارتا دریا اور اسکا یخ بستہ پانی بڑا لطف دے رہا تھا. بیگم صاحبہ کا یہ تاریخی جملہ کہ اس خوبصورت جگہ آنے میں اتنی دیر کیوں کئ. اپنے نالاہق ہونے کا یقیین دلا گیا. دریا یاترا کے بعد ناران کے لیے بغیر ناشتے نکل پڑے. کیونکہ ہوٹل صرف سونے کے لیے تھا. راستہ میں کئ جگہ سوچا کہ رک کر ناشتہ کیا جاہے کچھ سڑک چھاپ ہوٹل پہاڑوں سے نکلتے پانی پر تھے. مگر محمود غزنوی کی افواج کو دیکھ کر ہمت نہ ہوئ. سوچا ایک دفعہ ناران پہنچ کر سر چہپانے کا انتظام کرلیں. پھر ناشتہ بھی کرلیں گیں. پر صاحب نصیب میں ناشتہ نہ تھا. اچانک گاڑی سے دھواں نکلتا نظر آیا. گاڑی کو مسلسل پہلے گیر میں چلانا پڑرھا تھا. سارے ہمدرد مسافروں کو ہماری کار کا دھواں واضح طور پر نظر آگیا تھا. بیوی بچوں کا ساتھ انجان جگہ اور داہیں بائیں غزنوی افواج کی بہتات. گبھرا کر گاڑی روکی. سایڈ پر کرنے کے چکر میں ایک نیم گڑھے میں گاڑی پارک کردی. ایک نیم مکینک ھماری پریشانی دیکھکر مدد کو آیا اور ساتھ بھلے مانس نے گاڑی گرم ہونے کی وجہ بھی سمجھادی. صاحب ہم نے مشورے پر عمل کیا اور کار کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار شروع کیا.کار سے باہر آکر داہیں باییں کا جائزہ لیا. ہم ناران بازار سے کچھ اونچائ پر تھے. سڑک کے ایک جانب نیچے کی طرف کچھ ہوٹل نظر آرہے تھے. مگر ان تک رساہی ہمالیہ کی چوٹی سے نیچے آنے کے مترادف لگ رہی تھی.خیر صاحب ہمت مرداں مدد خدا کے فارمولے پر عمل کیا. آگے بڑھے نیچے جانے کا کوئ با ضابطہ راستہ نہ تھا. پہاڑوں سے آنے والے پانی کو آگے پہنچانے کے لئے پاہپوں کا ایک سلسلہ نظر آیا. جو تقریباً چار چار فٹ اونچائ والی سیڑھی نما تعمیر سے گزر رہا تھا. قریبا پچاس فٹ نیچے جا نا تھا. ہم نے مہم جوہی کا ارادہ کیا. اور کودتے پھاندتے نیچے تک پہنچ گئے. ایک صاف ستھرا ہوٹل نظر آیا. کاونٹر پر موجود افسر سے بات چیت کی آس نے ایک گھنٹے تک آنے کا کہا. گاڑی کی پریشانی موبایل کے سگنل ندارد. بیوی بچوں کی فکر. میں اسی راستے سے واپس بھاگا. اونچائ پھلانگتے ہوے پتلون کیچڑ میں لت پت ہوگی. بہرحال کار تک پہنچ گئے. گاڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی. گاڑی ناران بازار کی طرف موڑ دی. گاڑیوں کا ایک عظیم جم غفیر ناران بازار میں تقریباً دھرنا دہے ہوے تھا. رش کی وجہ سے ہم اس مطلوبہ ہوٹل تک نہ پہنچ سکے. مگر پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل تک جا پہنچے. یوٹل کے اندر ساتھ ہی دریا کا کنارا تھا. بیگم اور چھوٹا بیٹا دریا کی سیر کو نکل پڑے. ہم نہ ہوٹل میں کمرا حاصل کرنے کی کوشش کی اپنے سرکاری افسر ہونے کا واسطہ دیا. مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوے.میں اور بڑا بیٹا سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے رہے مگر کامیابی نہ ہوئ ہوٹل والوں نے حلال کرنے کا پورا پروگرام بنایا ہوا تھا. مطلوبہ ہوٹل تک پہنچنے کے لئے جس سے راستہ پوچھا اس نے ہوٹل کے علاوہ ہر جگہ کا راستہ بتادیا. گاڑی الگ تنگ کررہی تھی.بھوک الگ پریشان کررہی تھی. بہرحال تھوڑی دیر ناران کا مزہ لینے کے بعد بیگم کے حکم پر واپس کاغان مجھے. راستے میں دریا کنارے تازہ ٹراوٹ مچھلی کا ڈھابہ نظر آیا. لوکیشن بہت خوبصورت تھی. ٹھاٹھے مارتے دریا کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے ہٹ بنے ہوے تھے. گرماگرم مچھلی دال اور دریا کا کنارا. بڑا لطف دے رہا تھا. کھانا کھا کر واپس اسی ہوٹل میں پناہ لی. اگلی صبح چھ بجے بذریعہ جیپ جھیل سیفلملوک کا راستہ پکڑا.عید کا تیسرا دن غزنوی افواج کا ٹریفک کے معاملے میں جمہوریت کے اصولوں کی پابندی نے سفر کو کشمیر فتح کرنے جیسا مشکل بنا دیا.قریبا ساڑے چھے گھنٹے کہ سفر کے بعد سیفلملوک پہنچے. مگر اس دوران جو کچھ ہوا وہ کسی مہم سے کم نہ تھا. جھیل کا راستہ بہت دشوار گزار تھا. لیکن آفرین اپنے پاکستانی ڈرایوروں کی اتنی خطرناک راستوں پر جیپ چلاتے ہیں کہ سبحان اللہ. قدرتی مناظر نے تو طبیعت خوش کردی تھی. کاہہیاں دیکھکر ڈر بھی لگا. درمیان میں ڈرایور صاحب واپس آنے والے آنے والے اپنے پیٹی بھاہیوں سے تبادلہ خیال کرتے رہے. جسکے نتیجے میں انکو یہ احساس تکلیف دینے لگا کہ شاید ہم سے سستے میں سودا کر لیا. ہمیں بار بار واپسی کے لیے قایل کرنے کی کوشش کرتے رہے. مگر ہم بھی کتے کی دم کی طرح اڑے رہے. آخری موڑ پر ٹریفک کی ہل چل بلکل ہی رک گئ.ہمارے شہسوار نے جیپ ایک طرف کھڑی کر دی. تاکہ مولانا فضل الرحمن کو نقصان پہنچے. اور وقت کی اہمیت کا احساس بھی دلانا شروع کردیا. اور پہاڑ پر چھڑنے کی ہمت بھی دلایی. زوجہ کو پہاڑ کے چکر دار راستوں کی وجہ سے چکر آنے لگنے. اہل و اعیال کو ہمارے شہسوار نے ایک دوسری جیپ میں بٹھا دیا. اور ہم نے اپنی ڈھلتی جوانی کو پہاڑ پر چڑھاہی کے لیےآزمانےکا فیصلہ کیا. فیصلہ صحیح ثابت ہوا. بالآخر جھیل کا دیدار نصیب ہوگیا. لیکن بیوی بچوں کا ساتھ نہ ہونا تکلیف دے رہا تھا. میری فکر کو شہسوار صاحب نے بھانپا اور اور بچھڑوں کو ملانے کی تگودود میں لگ گیا. اپنے مقامی ہونے کا فائدہ اٹھا کر گاڑیاں بدل بدل کر بچھڑوں کو ملا دیا. بیوی بچوں کا ساتھ اور جھیل سیف اولملوک کا حسین نظارہ. لگ رہا تھا جنت کا کوی حسیں ٹکڑا زمیں پر آگیا.بچوں نے گھڑ سواری کی اور ہم میاں بیوی نے جھیل کے اطراف کی دلکشی کا پورا لطف اٹھایا. سیحایوں کا ہجوم اور ہمارے شہسوار صاحب کو واپسی پر ہونے والے رش کی فکر. ہماری جیپ کافی نیچے کی جانب تھی. اور ہجوم دیکھر لگ رہا تھا. کہ جیپ تک پہنچتے پہنچتے خاصا وقت لگ سکتا ہے.ڈرایور کے ہمت دلانے پر ہم نے بمعہ اہل و اعیال پہاڑ سے اترنے کا فیصلہ کیا. ڈر تو لگا مگر مزہ بہت آیا اور وقت بھی بچ گیا. ایک جگہ اہلیہ تھوڑی پھسل کر گری مگر اللہ نے خیر کی مگر جو ھمت دکھاہی وہ قابل تعریف تھی. ہمارا خیال تھا کہ ہم دن کی روشنی میں کا غان اپنے ہوٹل تک پہنچ جاہنگے مگر غزنوی افواج کی تازہ دم کمک نے ناران کاغان کا رخ کرنا شروع کردیا. آ دھے گھنٹے کا رستہ چھہ گھنٹے میں طے ہوا. رات دس بجے کے بعد بھوک سے بے حال ہوٹل پہنچے. کاغان کے ہوٹل میں کھانے کا مسئلہ تھا.باہر کے ایک ہوٹل سے پھیکی بریانی کھانے کی ناکام کوشش کئ. جیپ ڈرایور نے
بابو سر ٹاپ جانے کے لیے منانے کی بڑی کوشش کئ مگر غزنوی افواج بڑھتے ہوے طوفان کو دیکھکر ہمت نہ ہوئ اگلی صبح واپسی کی ٹھانی. اگلی صبح سویرے واپسی کے لیے نکل پڑے. ناشتہ دریا کنارے ایک ہوٹل پر کیا. بہتے دریا کا منظر جنت کےنظارے سے کم نہ تھا. اہلیہ نے واپسی پر کلر کہار کی جھیل سواے لیک دیکھنے کی فرماہش کر ڈالی. ہم نے اپنا اکاوہنٹنٹ دماغ استعمال کرنا شروع کیا کے کاغان سے کب تک کلر کہار پہنچ سکے گیں. میں شام چھے سے سات بجے تک کا حساب لگا رہا تھا. مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا. ایبٹ آباد پر بےانتہا رش ملا. اسلامآباد پہنچتے پہنچتے رات کے دس بج گئے. ایک اچھے سے ھوٹل میں رات کا طعام کیا. بھلا ہو گوگل والوں کا اور نوجوان نسل کے ٹیلنٹ کا موباہل پر ایک مناسب اپنی اوقات کے حساب سے ایک ہوٹل ڈھونڈا اور گوگل پر راستہ دیکھتے دیکھنے ھوٹل پہنچ گئے. اللہ خوش رکھے گوگل والوں کو. رات قیام کے بعد صبح ناشتہ کرتے ہی کلر کہار کو نکل پڑے. بارش نے واپسی کا سفر اور خوشگوار کر دیا.موٹر وے پر کلر کہار کے قریب قریب تیز بارش کےساتھ ساتھ اولے پڑنے شروع ہوگئے. بارش بڑی شدید تھی اور اولوں کی شدت نے گاڑی کی ونڈ اسکرین کی تو اولے اولے کردی. قریب ہئ ایک پیٹرول پمپ تھا اسکے شیڈ کے نیچے پناہ لی اور بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے. بارش رکتے ہی ہم نے جلد کلر کہار کا رستہ ناپنا شروع کردیا. سواے لیک تک پہنچنے کے لیے پہلے لینڈ کروزر پھر پہاڑوں کے دشوار گزار راستوں کا پیدل مارچ شروع کیا. بیس پچیس منٹ کی پیدل مارچ کے بعد سواے لیک پہنچے وہاں بھی منچلے نوجوانوں کا ہجوم. جھیل چاروں اطراف سے جالیوں سے گھری ہوہی تھی. بہرحال قدرت کی کاریگری کا شاہکار تھی. کچھ دیر وہاں رک کر واپسی کا سفر اونچائ کی جانب تھاجو کسی مہم جوہی سے کم نہ تھا. شروع کیا. بل آخر اپنے کلر کہار کے رہنما کی رہنمائ پر ایک اندرونی راستے سے جو موٹر وے والے راستے سے تقریباً 20 کلومیٹر کم تھا کھیوڑا کا رستہ پکڑا. اندرونی راستہ پہاڑوں سے سے گزرتہ ہوا تھا. خوبصورت لال رنگ کے پہاڑوں کے دلفریب مناظر نے بڑا لطف دیا. کٹاس راج کا تاریخی مندر بھی رستے میں نظر آیا. وقت کی کمی اور وہاں پر کسی تہوار کے رش کی وجہ سے باہر ہئ دیکھکر آگے بڑھے.ہم بمعہ اہل وعیال عصر کئ نماز سے پہلے کھیوڑا پہنچنا چاہتے تھے. اللہ کی مہربانی سے ایسا ہی ہوا. پہلے سفر کا وقت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے کلر کہار والے رہنما کو برا بھال کہہ رہے تھے کہ اس نے لمبا رستہ بتادیا. مگرجب کھیوڑا کے بازار پہنچے جو موٹر وے سےتقریباً 26 کلومیٹر اندر کئ جانب ہے. تو ہم نے کلر کہاری رہنما کو بڑی دعاہیں دیں. سکندر اعظم کےگھوڑوں اور انگریز سامراج کئ ذوق کھدائ کئ وجہ سے کھیوڑا کا نمک نہ صرف ہم پاکستانی عوام کو مل رہا ہے بلکہ تفریح کئ ایک دلفریب جگہ بھی میسر آگی. کان کے اندر نمک کی سلوں سے بنی مسجد منار پاکستان کاریگری کا شاہکار تھی. نمک کے پانی کی قدرتی جھیلوں اور انپر ہونے والی رنگ برنگی روشنیوں نے بڑا لطف دیا. کان کا درجہ حرارت کسی ایرکنڈیشنڈ کمرے کا مزہ دیتا ہے. نمک سے بنی دلکش اشیا نے خاتون اول و آخر کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور صاحب یعنی ہماری جیب کٹ گئ .ہم نے مغرب ہونے سے پہلے کھیوڑا سے نکلنے کا پلان بنایا ہوا تھا. مگر بیگم اور بچوں کی نمکین شاپنگ نے مغرب تقریباً کھیوڑا میں ہئ کردی واپسی کا سفر ایک بہت ہئ پتلی سی سڑک کا تھا. جو آپکو موٹر وے تک لیجاتی تھی. 26 کلومیٹر تک کا سفر اور آس پاس کوہی اسٹریٹ لایٹ نہیں. بہرحال ہم کچھ ہی دیر میں موٹروے پر تھے اور لاہور کا رستہ ناپ رہے تھے. اندھیرے میں لاہور تک کا سفر کافی خوشگوار رہا. اللہ نے ہر کام پلان کے مطابق کروایا. صرف پانچ منٹ کے فرق سے نے جو پلان وقت تھا لاہور پہنچنے کا 10:35 رات اسپر ٹھیک اپنی لاہوری رہائش گاہ پر حاضری دی. ایک دن آرام کیا اور بیگم صاحبہ کو بچی کچھی شاپنگ کرادی. لاہور کا درجہ حرارت کافی زیادہ تھا. بہرحال ایک دن کے آرام کے بعد دفتر حاضری فی اور بھر مزید کچھ دنوں کئ رخصت لے کر بزریعہ ریل سندھ کئ ترقی کا راز جاننے کے لیے کراچی کی جانب روانہ ہوے.
“کسی کو ترقی دیکھنا ہےتو میر ے ساتھ سندھ چلے” اس حقیقت کئ تلاش میں بیس برس بعد ریل کا سفر کیا. اندرون سندھ سے کراچی تک کے سفر میں انگریزی کا سفر بہت لطف اندوز رہا. ریل کے بزنس کلاس کے ڈبے میں اپنی کلاس یاد آ گئ. بیس برس پہلے والے سارے فطری مناظر آج بھی ویسے ہی ہیں. بلکہ کچھ تو پہلے سے بھی خیر چھوڑیے ترقی کئ بات کرتے ہیں. بیس برس پہلے والی ترقی اب جوان ہو چکی ہوگی میں یہ سوچ رہا تھا. اور ترقی کے دیدار کا بیچینی سے انتظار کررھا تھا. کہ آچانک آپ کیا سمجھے ترقی نظر آگی نہیں بھیی ریل فنی خرابی کئ وجہ سے رک گئ. گرین لاین نے طبیعت ہری کردی. اور ہاں یاد آیا ترقی تلاش جاری ہے کسی کو نظر آیے تو میرا سلام کہیے گا.